Wednesday, 8 November 2017

یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں

اختر شیرانی اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں‘ لاہور کے عرب ہوٹل میں ایک دفعہ کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے‘ اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اس وقت تک وہ دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے‘ تمام بدن پر رعشہ طاری تھا‘ حتیٰ کہ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے‘ ادھر ’’انا‘‘ کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے‘

جانے کیا ہوا سوال زیر بحث تھا‘ فرمایا! مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے جو ہر اعتبار سے جینئس بھی ہیں اور کامل الفن بھی‘ پہلے ابوالفضل‘ دوسرے اسد اللہ خان غالب‘ تیسرے ابوالکلام آزاد۔ شاعر وہ شاز ہی کسی کو مانتے تھے‘ ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے‘ اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے‘ کمیونسٹ نوجوانوں نے ’’فیض‘‘ کے بارے میں سوال کیا‘ طرح دے گئے‘ ’’جوش‘‘ کے متعلق پوچھا‘ کہا! وہ ناظم ہے‘ سردار جعفری کا نام لیا‘ مسکرائے ’فراق کا ذکر چھیڑا ’’ہوں ہاں‘‘ کر کے چپ ہو گئے، ’’ساحر لدھیانوی‘‘ کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا! مشق کرنے دو، ’’ظہیر کاشمیری‘‘ کے بارے میں کہا، نام سنا ہے، احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا ’’میرا شاگرد ہے‘‘۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کارخ پھیر دیا ’’حضرت! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، نشہ میں چُور تھے، زبان پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کرفرمایا ’’کیا بکتے ہو؟‘‘ ادب و انشاء یا شعرو شاعری کی بات کرو، کسی نے فوراً ہی افلاطوں کی طرف رخ موڑ دیا، ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے، فرمایا ’’اجی! پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں، یہ ارسطو، افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھے ہوتے،

ہمیں ان سے کیا کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں‘‘ اس لڑکھڑائی ہوئی آواز سے فائدہ اٹھا کر ایک ظالم قسم کے کمیونسٹ نے سوال کیا’’آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘اللہ اللہ! ایک شرابی جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا ’’بدبخت! ایک عاصی سے سوال کرتا ہے، ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے، ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘ تمام جسم کانپ رہا تھا،

ایکاایکی رونا شروع کیا، گھگھی بندھ گئی، ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا، تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب ’’باخدادیوانہ باش، وبامحمدؐ ہوشیار‘‘ اس سوال پر توبہ کرو۔ تمہارا خبثِ باطن سمجھتا ہوں ’’خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے، اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، اس نے بات کو موڑنا چاہا، مگر اختر کہاں سنتے تھے، اسے اٹھوا دیا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے، تمام رات روتے رہے، کہتے تھے ’’یہ لوگ اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں‘‘۔

انتخاب. سید ثاقب شاہ

No comments:

Post a Comment