Sunday, 17 December 2017

جہیز مانگنے کے شریفانہ طریقے

(سرفراز فیضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہیز مانگنا ویسے تو بری چیز ہے لیکن اگر کسی کو مانگنا بھی ہے تو اس کا مناسب طریقہ یہی ہے کہ شرم، جھجھک پر لعنت بھیج کر منہ کھولے اور جو مانگنا ہے مانگ لے ۔ 
یہ جو شریف بننے کی کوشش کرنے والے حضرات نے اپنی عزّت بچانے کے لیے جہیز مانگنے کے کچھ ان ڈائریکٹ طریقے ایجاد کرلیے ہیں یہ زیادہ خراب اور اذیت ناک ہیں ، ، یہ شادی طے کرتے وقت کہیں گے " اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے ، ہاں جو دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے"
یہ حضرات اپنی ساری خبیث ڈیمانڈ " جو دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے " کے پردے میں لپیٹ کر لڑکی والوں تک پہنچا دیتے ہیں ، اب بے چارے لڑکے والے بھی پریشان رہتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کا یہ "جو" آخر ہے کتنا بڑا جس سے ان کا پیٹ بھر جائے گا۔
بعض جو ان سے تھوڑے سے زیادہ بے شرم ہوتے ہیں وہ کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ " فلاں صاحب رشتہ چاہ رہے تھے ، اتنا دے رہے تھے پر ہم نے انکار کردیا" اب اس میں جملے میں بھی ایسا ابہام ہوتا ہے کہ "اتنے" سے "کتنے زیادہ" پر حضور ڈیل فائنل کریں گے واضح نہیں ہے ۔
سب سے خطرناک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں " ہم کو جہیز کے نام پر ایک پائی نہیں چاہیے ، بس تعلقات زیادہ لوگوں سے ہیں اس لیے براتی زیادہ آئیں گے ،ان کی خاطر داری میں کوئی کسر نہ رہے " لڑکی والے جانتے ہیں کہ " کچھ نہیں چاہیے " کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی بڑا سامان یا موٹی رقم نہیں چاہیے ، باقی جو سامان جہیز کے ہوتے ہیں اس کے بغیر تو شادی کا تصور بھی ممکن نہیں ، لڑکی والے بے چارے ساری جمع پونچی جہیز کے سامان، ٹینٹ سے لے کر براتیوں کی خاطر مدارت کے انتظام میں لگا دیتے ہیں اور شادی سے ٹھیک ایک یا دو دن پہلے کال آتی ہے۔ " بیٹا نہیں مان رہا، کہہ رہا بائک نہیں ملی تو شادی کینسل اب جب شادی فکس ہوچکی ہوتی ہے، کارڈ بٹ چکے ہوتے ہیں ، سارے انتظامات کا بوجھ کاندھوں پر اتنا وزن ڈال چکا ہوتا ہے کہ انکار کا بوجھ رکھنے کی گنجائش باقی ہی نہیں بچتی اور چار وناچار " نئی فرمائش" کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے ۔
آج کل نئی " شیان پنتی" شروع کی ہے ، سامان کے بجائے کیش مانگنے کی، وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ گھر والوں کو پتہ ہے کہ بہو سامان لائے گی تو تحویل میں بھی اپنے ہی رکھے گی ، حق بھی اپنا جتائے گی ، اس سے نجات کا آسان راستہ ہے کہ کیش مانگ لیا جائے اور اپنے کام میں لگا لیا جائے ، اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوجاتا ہے کہ لڑکے والے جہیز لینے کی بدنامی سے بھی بچ جاتے ہیں، "کچھ نہیں لیا" کا سرٹیفیکٹ بھی مل جاتا ہے۔ 
شہر والے ہشیاری میں چار قدم آگے ہیں ، یہ جہیز نہیں مانگتے ، ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو اچھے جاب پر ہو، جہیز تو ایک بار میں آتا ہے ختم ہوجاتا ہے ، کمانے والی لڑکی تو دودھیاری گائےہوتی ہے جس کے سوتے کبھی خشک بھی نہیں ہوتے ۔
تو بھائیو! جہیز مانگ رہے ہو تو دودھ پلانے سے تعلیم دلانے تک جتنا خرچ آیا ہے سب جوڑ جاڑ کر، منہ کھول کر مانگ لو، لڑکی والے کی عقل مخمصے اور جان آفت میں نہ ڈالو اور مظلوم لڑکی والوں دے رہے تو سب کو دکھا کر دو۔ بھک منگوں کو چہرے پر شرافت کا پردہ ڈالنے کا موقع نہ دو!!!
لعنت جہیز پر۔۔۔۔۔ 

ساغر نظامی

ساغر نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا تخلص رکھتی تھیں۔ 
 ماجد حیدرابادی سے چونکہ ساغر صاحب کی چشمکیں چلتی رہتی تھیں اس لئے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیں بلایا جائے گا۔
 ایک مشاعرے میں صدارت  کی تھی۔ چونکہ ماجد صا حب مدعو نہیں تھے اس لئے وہ مشاعرہ سننے کے لئے سامعین میں آ کر بیٹھ گئے۔
 لوگوں کو جب پتہ چلا تو سب نے شور مچا دیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبوراً منتظمین کو ماجد صاحب کو دعوت سخن دینی پڑی۔
 ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا اس لئے کوئی غزل ساتھ نہیں ہے
 البتہ دو شعر فی البدییہ کہے ہیں جناب صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ اجازت ملتے پر یہ دو شعر سنائے

پھر آ   گیا ہے لوگو بر سا ت  کا مہینا
لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب   پینا

پہنچا جو میکدے میں حیران رہ گیا میں
الٹا پڑا تھا ساغر اوندھی پڑی تھی مینا
ماخوذ از ادبی لطائف